Ham apni fikr ka chahra Badal Kay dekhty Hain
غزل
ہم اپنی فکر کا چہرہ بدل کے دیکھتے ہیں
طلسم خواب سے باہر نکل کے دیکھتے ہیں
سنا یہ ہے کہ بہت تیز گام ہو تم لوگ
تمہارے ساتھ ذرا ہم بھی چل کے دیکھتے ہیں
اٹھا کے چاند ستاروں کو سر پہ دیکھ چکے
ہم اپنے ماتھے پہ اب خاک مل کے دیکھتے ہیں
ذرا پتہ تو چلے حسن عہد نو کیا ہے
نئی نگاہ کے سانچے میں ڈھل کے دیکھتے ہیں
نئی حیات کی تصویر دیکھنے والے
حد نگاہ سے آگے نکل کے دیکھتے ہیں
یہ کیسے دوست ہیں پوچھے تو کوئی ان سے ذرا
سنبھالتے نہیں لیکن سنبھل کے دیکھتے ہیں
یہاں وہاں تو بہت جل چکے میاں قیصرؔ
اب اپنے دل کی سمادھی پہ جل کے دیکھتے ہیں
قیصر صدیقی
Qaiser Siddiqui