ہم اپنی پشت پر کھلی بہار لے کے چل دیے
سفر میں تھے سفر کا اعتبار لے کے چل دیے
سڑک سڑک مہک رہے تھے گل بدن سجے ہوئے
تھکے بدن اک اک گلے کا ہار لے کے چل دیے
جبلتوں کا خون کھولنے لگا زمین پر
تو عہد ارتقا خلا کے پار لے کے چل دیے
پہاڑ جیسی عظمتوں کا داخلہ تھا شہر میں
کہ لوگ آگہی کا اشتہار لے کے چل دیے
جراحتیں ملیں ہمیں بھی انکسار کے عوض
جھکا کے سر صداقتوں کی ہار لے کے چل دیے
یعقوب یاور