ہم اپنے عہد سے وابستہ بھی جدا بھی ہیں
ہیں خاک زاد مگر خاک سے خفا بھی ہیں
ہم ان سے لطف طلب ہیں اگرچہ جانتے ہیں
ہم اپنے واسطے خود باعثِ سزا بھی ہیں
وہ لوٹ آئیں تو تخفیف ہو بھی سکتی ہے
یہ اور بات کہ کچھ درد لا دوا بھی ہیں
یہ ایک طرفہ تماشہ ہے دیکھیے کیا ہو
انا پرست محبت میں مبتلا بھی ہیں
دل و دماغ کے اس کھیل کی بدولت ہم
ہیں اپنی ذات میں کچھ قید کچھ رہا بھی ہیں
یہ بے زبانی نہیں ہے تہی معانی سے
درونِ ساعت دوراں ہم اک نوا بھی ہیں
یہ چھاؤں بانٹتے ہیں اور دعائیں لیتے ہیں
ترے فقیر تونگر بھی ہیں گدا بھی ہیں
یوسف خالد