Ham ik Talash main youn Aaina Uthaty Hain
غزل
ہم اک تلاش میں یوں آئنہ اٹھاتے ہیں
کہ جیسے گاؤں میں کھوجی کھرا اٹھاتے ہیں
یہاں کے لوگوں کا بنیادی مسئلہ ہے یہی
یہ روز ایک نیا مسئلہ اٹھاتے ہیں
شناورانِ محبت کی سادگی مت پوچھ
یہ لوگ آج بھی کچا گھڑا اٹھاتے ہیں
سنا ہے شہر کی گلیوں میں خاک اڑتی ہے
فقیر طیش میں جب بسترا اٹھاتے ہیں
مقامِ صبر و رضا پر پڑاؤ ڈال کے ہم
کبھی علم کبھی دستِ دعا اٹھاتے ہیں
لہو رلاتا ہے تیغ و سپر کا آخری لمس
اسیر جب کبھی زنجیرِ پا اٹھاتے ہیں
پنپ گئے تو عناصر کا قرض اتاریں گے
ابھی تو منتِ آب و ہوا اٹھاتے ہیں
عظیم راہی
Azeem Rahi