غزل
ہم ایسے لوگ کہاں منزلوں کو پاتے ہیں
ہم ایسے لوگ فقط راستے بناتے ہیں
یہ تیرے جسم کو چھو کر پتہ چلا ہے مجھے
کہ نرم پھول بہت جلد سوکھ جاتے ہیں
یہ کام ہجر میں بدعت شمار ہوتا ہے
مگر یہ دیکھ کہ ہم پھر بھی مسکراتے ہیں
ترا تو خیر کوئی تجھ سے دور ہی نہ گیا
تجھے خبر ہی نہیں سانس کیسے آتے ہیں
نظر نہ آئیں گے تجھ کو غبار اڑنے دے
ترے لیے جو مجھے راہ سے ہٹاتے ہیں
تمہارے خواب غنیمت ہیں بجھتی آنکھوں کو
مگر یہ خواب ہمیں نیند سے جگاتے ہیں
یہ کون باغ میں ساحرؔ دکھائی دینے لگا
کہ پھول پیڑ پرندے خوشی مناتے ہیں
جہانزیب ساحر