غزل
ہم بھی کیا زندگی گزار گئے
قرض جیسے کوئی اتار گئے
جن سے پھولوں کی تھی مجھے امید
وہ بھی دامن میں بھر کے خار گئے
بے وجہ بھی کسی کے کوچے میں
ہم گئے اور بار بار گئے
یارو ہم تو تمہاری دنیا میں
بے سکوں آئے بے قرار گئے
بعض ہمدرد تلخ گوئی سے
دل میں خنجر سا اک اتار گئے
لمحے خوشیوں کے بھی ملے لیکن
غم کو کچھ اور بھی نکھار گئے
روٹھ کر کیا گئے وہ اے ہاتفؔ
جیتے جی جیسے مجھ کو مار گئے
ہاتف ارفی فتح پوری