غزل
ہم ترے غم کے پاس بیٹھے تھے
دوسرے غم اداس بیٹھے تھے
بس وہی امتحاں میں پاس ہوئے
جو ترے آس پاس بیٹھے تھے
شاہ کو بھا گئی تھی اک داسی
سب مصاحب اداس بیٹھے تھے
آندھی آئی تو انکشاف ہوا
کرسیوں پر لباس بیٹھے تھے
بام و در کو نہیں دکھائی دئے
تم ہمارے ہی پاس بیٹھے تھے
آج تھا بادشاہ کا تیجا
قبر پر صرف داس بیٹھے تھے
دوستوں نے ہنسا دیا آ کر
اچھے خاصے اداس بیٹھے تھے
فہمی بدایونی