ہم جس کی بوند بوند کو ترسے چلا گیا
وہ ہم پہ اِس سے قبل کہ برسے چلا گیا
احباب اُس کو واپسی لینے نکل پڑے
غربت کا بھوت جب میرے گھر سے چلا گیا
تب سے یہ دھوپ میرے مقدر میں آ گئی
سایہ جب ایک پیڑ کا سر سے چلا گیا
تجھ سے ملوں گا سوچ کے آیا تھا میں مگر
کچھ پَل ٹھہر کے مَیں تیرے در سے چلا گیا
پنچھی شجر کی شاخ پہ بیٹھے تو دیر تک
تنہائیوں کا بوجھ شجر سے چلا گیا
میں نے یہ زندگی کا خلاصہ لکھا رضا
آیا اُدھر سے اور اِدھر سے چلا گیا
محمد رضا حیدری