غزل
ہم جو کسی کے ہو گئے ہم جو کسی پر مر گئے
اپنی تمام عمر میں کام یہی تو کر گئے
دل کے نصیب جاگ اٹھے تار نظر سنور گئے
آپ جہاں جہاں رہے آپ جدھر جدھر گئے
حسن کو جن پہ ناز تھا جب سے وہ دیدہ ور گئے
کتنے ہی چہرے پھول سے زرد پڑے اتر گئے
جب نہ ہو کوئی قدرداں فصل بہار بھی خزاں
غنچے چٹک کے رہ گئے پھول کھلے بکھر گئے
ڈھونڈھ رہی ہے بار بار ان کی نگاہ سوگوار
اہل وفا وہ کیا ہوئے اہل نظر کدھر گئے
حسن وہی ادا وہی جلوہ وہی فضا وہی
کس سے نظر کی داد لوں ہائے وہ ہم نظر گئے
اک در یار کے سوا کچھ نہ کہیں سکوں ملا
جانے کہاں کہاں پھرے جانے کدھر کدھر گئے
اپنی تو موت اور حیات ان کی بس اک نظر کی بات
ایک نظر میں جی اٹھے ایک نظر میں مر گئے
کاملؔ اسی پہ چھوڑ دے دست دعا کو توڑ دے
صبر سے اب بھی کام لے نالہ تو بے اثر گئے
کامل شطاری