غزل
ہم زمین زادوں کو آسماں بنا جانا
پہلے خاک کر دینا اور پھر اڑا جانا
جسم سے جدا رہنا روح میں سما جانا
کوئی آپ سے سیکھے جان پر بنا جانا
بے شعور ساتھی نے ساحلوں کے باسی نے
ہم کو سر پھرا سمجھا دشت کی ہوا جانا
اور گر قریب آتے نقش اور دھندلاتے
قربتوں کی دوری کو تم نے فاصلہ جانا
بے ضمیر شہروں کے بے ضمیر لوگوں سے
جو بھی مل گیا ہم کو وہ تری عطا جانا
شفیق سلیمی