غزل
ہم شہر محبت کو بسانے میں لگے ہیں
کچھ لوگ مگر آگ لگانے میں لگے ہیں
تاریخ تو تاریخ ہے ہرگز نہ مٹے گی
ناداں ہیں جو تاریخ مٹانے میں لگے ہیں
افسوس کہ اس جنگ میں اب ظل الٰہی
خود اپنے ہی لشکر کو ہرانے میں لگے ہیں
وہ ہے کہ کہانی ہی بدلنے پہ تلا ہے
اور ہم ہیں کہ کردار نبھانے میں لگے ہیں
کچھ درد تو ظلمت نے دئے ہیں ہمیں لیکن
کچھ زخم چراغوں کو جلانے میں لگے ہیں
لوٹے ہیں تو اب ساتھ فقط گرد سفر ہے
اب جا کے کہیں ہوش ٹھکانے میں لگے ہیں
جو بات نفسؔ سارے زمانے پہ عیاں تھی
ہم ہیں کہ وہی بات بتانے میں لگے ہیں
نفس انبالوی