غزل
ہم شہر نطق کے تھے وہیں کے نہیں رہے
وہ چپ لگی ہمیں کہ کہیں کے نہیں رہے
ہم خواب دیکھتے تھے بہت آسمان کے
آخر میں یہ ہوا کہ زمیں کے نہیں رہے
ہم میں تھے جانے کون سے کانٹے اگے ہوئے
سب کے رہے ہیں آپ ہمیں کے نہیں رہے
دل کو جھکا کے دل سے ادا کر دئے گئے
سجدے رہین صرف جبیں کے نہیں رہے
دو چار لوگ میرے ہوں میرے لئے بہت
سو فیصدی تو عرش نشیں کے نہیں رہے
احتشام الحق صدیقی