Ham Nay tu ki thee Khowahish e deedar Zeer e Lab
غزل
ہم نے تو کی تھی خواہشِ دیدار زیرِ لب
کیوں مسکرا کے چل دیئے سرکار زیرِ لب
دونوں جہاں ہمارے سنور جائیں گے حضور
بس اک ذرا سا پیار کا اظہار زیرِ لب
اقرار پر ہے آپ کے قائم مرا وجود
بارِ خدا نہ کیجئے انکار زیرِ لب
یوں بے حجاب سیر کو جایا نہ کیجئے
باتیں ہزار کرتے ہیں اغیار زیرِ لب
ویسے تو شعر گوئی سے میری خفا ہیں وہ
پر گنگناتے ہیں مرے اشعار زیرِ لب
کتنا حسیں ہے آپ کا اندازِ گفتگو
پڑھتے ہو جیسے صبح کا اخبار زیرِ لب
جراَت اگر ہےتجھ میں تو کر احتجاجِ ظلم
ظاہرمیں کر نہ پائے تو کر یار زیر ِلب
پھر اس پہ وار کر کے کوئی فائدہ نہیں
تسلیم جس نے کر لی میاں ہار زیر ِلب
لگتا ہے شاؔد نزع کے عالم میں آپ سے
کچھ کہہ رہا ہے آپ کا بیمار زیر ِلب
شمشاد شاد
Shamshad Shad