ہم نے جتنی محبتیں کی ہیں
بخدا سب بغاوتیں کی ہیں
وہ محبت نہیں ملی پھر بھی
جس کی خاطر محبتیں کی ہیں
قریہ قریہ حسین چہروں کی
لمحہ لمحہ زیارتیں کی ہیں
ہم نے پوری وفا کے رستے میں
اپنی اپنی ضرورتیں کی ہیں
جس کو چاہا بھلا دیا اس کو
عشق میں بھی خیانتیں کی ہیں
تیری تصویر سامنے رکھ کر
خوب پی ہے شرارتیں کی ہیں
چار غزلیں ہیں وہ بھی چوری کی
اس پہ ہم نے صدارتیں کی ہیں
رند پی کر نماز پڑھتے تھے
اور ہم نے امامتیں کی ہیں
شعر یونہی نہیں ہوئے شہ دل
خون تھوکا ریاضتیں کی ہیں
شاہ دل شمس