ہم وفاؤں سے جفاؤں کا صلہ دیتے رہے
وہ رقیبوں کو مرے پھر بھی گلہ دیتے رہے
جب نہ پایا کاتب تقدیر کو بھی غم گسار
آرزوؤں کو تھپک کر ہم سلا دیتے رہے
ان کے آنے کی بندھی امید تو ایسا ہوا
راستے میں ہم چراغ دل جلا دیتے رہے
عشق میں بسمل ستم سے اسقدر مایوس تھے
ہر خوشی کا سلسلہ غم سے ملا دیتے رہے
اقبال بسمل