غزل
ہم یہ چاہیں ہمیں انکار کی جرأت ہو جائے
لب تک آئے تو وہی حرف ندامت ہو جائے
میری سوچیں مرا احساس مری ہی آواز
میرے شعروں سے مگر آپ کی شہرت ہو جائے
خاک ہو کر وہ ہواؤں میں بکھرنا چاہے
جب کسی کو در و دیوار سے وحشت ہو جائے
ایسی دنیا میں بڑی بات ہے زندہ رہنا
یوں تو ویرانے میں رہنا بھی عبادت ہو جائے
زندگی حسن ہے اور حسن کشش رکھتا ہے
ورنہ ہر شخص کو جاں دینے کی فرصت ہو جائے
اختلافات بھی ہوں صلح بھی ہو جائے اگر
رنجشوں میں ہمیں احساس مروت ہو جائے
وضاحت نسیم