ہنگامے سے وحشت ہوتی ہے تنہائی میں جی گھبرائے ہے
کیا جانئے کیا کچھ ہوتا ہے جب یاد کسی کی آئے ہے
جن کوچوں میں سکھ چین گیا جن گلیوں میں بدنام ہوئے
دیوانہ دل ان گلیوں میں رہ رہ کر ٹھوکر کھائے ہے
ساون کی اندھیری راتوں میں کس شوخ کی یادوں کا آنچل
بجلی کی طرح لہرائے ہے بادل کی طرح اڑ جائے ہے
یادوں کے درپن ٹوٹ گئے نظروں میں کوئی صورت ہی نہیں
لیکن بے چہرہ ماضی سایہ سایہ لہرائے ہے
کچھ دنیا بھی بیزار ہے اب ہم جیسے وحشت والوں سے
کچھ اپنا دل بھی دنیا کی اس محفل میں گھبرائے ہے
کلیوں کی قبائیں چاک ہوئیں پھولوں کے چہرے زخمی ہیں
اب کے یہ بہاروں کا موسم کیا رنگ نیا دکھلائے ہے
دیوار نہ در سنسان کھنڈر ایسا اجڑا یہ دل کا نگر
تنہائی کے ویرانے میں آواز بھی ٹھوکر کھائے ہے
یہ میرا کوئی دم ساز نہ ہو رفعتؔ یہ کوئی ہم راز نہ ہو
جو میرے گیت مری غزلیں میری ہی دھن میں گائے ہے
رفعت سروش