غزل
ہوش میں آ کہ بے خبر دور جنوں گزر گیا
وہ نہ اب اس کی رہ گزر دور جنوں گزر گیا
کھینچتے تھے شباب میں اشہب وقت کی زمام
شوق جوان ہے مگر دور جنوں گزر گیا
شانۂ فکر لایا ہوں چھین کے حادثات سے
گیسوئے زندگی سنور دور جنوں گزر گیا
چاہنے والے سب ترے نفع و ضرر کے ہو گئے
کیوں نہ اٹھی تری نظر دور جنوں گزر گیا
موج بلا گزر گئی کچھ تو سکوں کا سانس لیں
پھر سے بنائیں اپنا گھر دور جنوں گزر گیا
سہل ہو یا کٹھن ہو راہ آؤ اب اس پہ چل پڑیں
ہات میں ہات ہم سفر دور جنوں گزر گیا
عقل کی چاندنی سے اب دور تلک ہے روشنی
ڈھونڈ کے لا نئی سحر دور جنوں گزر گیا
سعید الظفر چغتائی