ہونٹوں کو میرے چوم کے ظالم نہ مار دے
تابش سے کہدو جان کا صدقہ اتار دے
یارب ہماری زیست کو ایسا نکھار دے
ساون میں جیسے پھول کو بارش بہار دے
کب تک ترے دُوار سےلوٹیں گے خالی ہاتھ
رحمت کو اپنی بھیج مقدر سنوار دے
ہجرت میں ان دنوں ہیں کما حقہُ بیتاب
باہوں کا اس کے دلنشیں دلکش حصار دے
اشکوں سے ہم نہائے ہیں چاہت میں بارہا
موسم تو اس کے پیار کا اب خوشگوار دے
دھوکے ملے ہیں پیار میں جن سےبھی کی وفا
اب ہمسفر بھی دے تو کوئی غمگسار دے
میدانِ کارزار میں ہرپل ہو تیرا ساتھ
اتنا بھروسہ آج تو پرور دگار دے
دریائے کربلا میں ہوں مٗیں کب سے موٗجزن
تابش کو موجِ کرب سے مولا ابھار دے
تابش رامپوری