Hontoo ki kuch aankhoo ki dua aur hi kuch hay
غزل
ہونٹوں کی کچھ آنکھوں کی دعا اور ہی کچھ ہے
میرے تو مقدّر میں لکھا اور ہی کچھ ہے
اے درد ! نہیں تیرا جو ہے کوئی مسیحا
دل میرا سمجھتا ہے دوا اور ہی کچھ ہے
ہو جائے یقیں اس کو گئ جان ہماری
شاید کہ محبت میں وفا اور ہی کچھ ہے
وہ چل بھی دیا بات مری اَن سُنی کر کے
اس نے نہ سُنا "میں نے کہا ” اور ہی کچھ ہے
تُونے تو محبت میں سزا اتنی بڑی دی
اے جانِ جہاں ! میری خطا اور ہی کچھ ہے
تم اپنے ہی گھر پر قمرؔ ملتے ہو نہیں کیوں
اے یار ! تیرے گھر کا پتا اور ہی کچھ ہے
قمرِ عالم قمرؔ
qamer alam qamer