23/02/2025 18:10

ہونٹ – Hount

افسانہ

ہونٹ

تحریر ۔ محمداشرف

عامر ایک جوان ، خوبرو ، جاذِبِ نظر ، زہین ، محنتی ، خوددار اور محاسنِ اخلاق کا پیکر ہونے کے ساتھ ایک معزز ، امیر اور کھاتے پیتے گھرانے کا اکلوتا چشم و چراغ تھا ، اِسی وجہ سے اُس کا بچپن انتہائی ناز و نعم میں گزرا ، پڑھنے لکھنے میں بھی بھرپور دلچسپی لیتا ، کھیل کود میں بھی دیگر تمام رفقائے پر سبقت رکھتا ، اور بے تہاشا زہین ہونے کی بدولت اساتذہ کے آنکھ کا تارا بھی بن چکا تھا۔

عامرانتہائی زہین تو تھا ہی ، اس کی قابلیت بھی مسلم و روزِ روشن کی مانند عیاں تھی ، تعلیم مکمل کرتے ہی وہ ایک کلیدی عہدے پر فائز ہوگیا ۔

عورت اللہِ کریم کی جملہ خلقت میں عظیم ترین اور سب سے نایاب تخلیق ہے جو نزاکت و حساسیت مہر و الفت اور وفا کا پیکر ہے ۔

مگر وقار کو عورتوں کے ساتھ اختلاط اور تعلقات استوار رکھنے میں کوئی خاصی دلچسپی نہ تھی ، اِسے منکسر المزاجی کہیے یا پھر خاندانی تربیت کا عنصر ، بہر کیف اُس کا میلان اِس سمت بالکل نہ ہونے کے برابر تھا ، وقت کا پہیہ بدستور گھومتا رہا ، مگر اُس کے مزاج میں اِس حوالے سے کوئی خاص تبدیلی رونما نہ ہو پائی ۔

ایک دن عامر حسبِ معمول جملہ کارِ سرکار نمٹانے کے بعد دفتر سے نکلا ، اگلا دن کیوں کہ اتوار کا تھا ، اور اتوار کے دن تمام تر سرکاری و غیر سرکاری دفاتر میں عام تعطیل ہوتی ہے ،

اتفاق سے اس دن ہلکی ہلکی بوندا باندی ہورہی تھی اور موسم بھی خاصا خوشگوار تھا ، چنانچہ اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہی اپنا زہن بنا لیا کہ کیوں نہ آج لونگ ڈرائیو پر نکل کر موسم کا مزہ لے لیا جائے ، ویسے بھی تو کل اتوار ہے اور چھٹی بھی ۔

کافی فاصلہ طے کرنے کے بعد سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر اُس کی نگاہ ایک اکیلی و مضطرب لڑکی پر پڑی ، شاید وہ کسی اپنے کی آمد کے انتظار میں تھی ، عامر کی نگاہ لڑکی پر پڑھتے ہی گویا عورتوں کے حوالے سے اُس کی سوچ کے تمام تر زاویے بدل گئے ۔

لڑکی انتہائی پُرکشش ، حسین و جمیل ، قد کاٹ میں بھی لاثانی ، رنگت گندمی (بزرگوں کے تجزیے کی روح سے ایسی رنگت میں قدرتی طور پر بَلا کی کشش ہوا کرتی ہے) اگرچہ اس نے اپنے ہونٹ اور بال نقاب میں چھپا رکھے تھے مگر عامر اُس کے پُر سَحر وجود اور جھیل جیسی گہری اور غزالی آنکھوں کے دام میں نہ چاہتے ہوئے بھی مکمل طور پے آ گیا ۔

بدن کے ڈیل ڈھول ، چہرے اور آنکھوں سے وہ ایک نوخیز کھلتی ہوئی کَلِی معلوم ہورہی تھی ۔

عامر کا پاؤں غیرارادی طور پر بریک پھر آگیا ، اور گاڑی بالکل اس لڑکی کے قریب آکر رک گئی ۔

عامر نے نگاہیں جھکا کر اور گلہ صاف کرتے ہوئے قدرے بلند آواز سے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا ،

اسلام علیکم !!!!

محترمہ کیا آپ کسی کے منتظر ہیں ؟ اگر نہیں تو غالب گمان ہے کہ آپ کا کہیں جانے کا قصد تو ضرور ہوگا ، میں ویسے بھی اِسی سبیل کا رَاہی ہوں اگر آنجنابِ عالیہ کی طبع نازک پے باعث بارِ گِراں کا موجب نہ ہو تو بیٹھ جائیے تاکہ آپ کو آپ کے منزل تک پہنچا کر ایک پنیے کا کار سرانجام دینے کی سعادت حاصل کرسکوں ۔

لڑکی پہلے تو گھبرائی ، مگر پھر اُسے عامر کے چہرے پر شرافت اور گفتار میں لطافت سے اس کے خاندانی ہونے کے آثار واضح طور پر دکھائی دیئے اور اس نے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول دیا اور اپنے کپڑوں کو سمیٹتی ہوئی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر جاکر بیٹھ گئی ۔ عامر نے اپنی نظریں گاڑی کے سامنے والے بڑے شیشے کے اوپر نصب چھوٹے سے آئینے میں گھاڑ دیئے اور انتہائی باریک بینی سے لڑکی کے جملہ خدوخال کا جائزہ لینے لگا لڑکی کی آنکھیں اس قدر پرکشش تھیں کہ گویا عامر نے اپنی پوری زندگی میں کھبی ایسی آنکھیں اور وہ بھی اتنے قریب سے قطعاً نہیں دیکھی تھیں اسے اس لڑکی کی آنکھوں میں ایک عجیب سی اپناہیت محسوس ہوئی ۔

اس کے بعد اس نے اپنی نگاہوں کو اس کے ہونٹوں پر مرکوز کرلیا جو کہ نقاب میں پوشیدہ مگر خاصی ابھری ہوئی تھیں ، عامر اس کی ابھری ہوئی ہونٹوں کو لیکر گویا تصورات کے ایک گہرے ساگر میں غوطہ زن ہوگیا اور ساتھ ہی اس کے زہن میں ایک سوال نے جنم لیا کہ جس کی ظاہری ڈیل ڈھول اتنی پرکشش و بے مثال اور آنکھیں اتنی خوبصورت ہوں تو پھر اس کے پوشیدہ ہونٹوں کی کشش کا کیا عالم ہوگا (ویسے سیانے کہتے ہیں کہ پوشیدہ چیزوں میں بَلا کی کشش ہوتی ہے) الغرض عامر اس کی ہونٹوں کی بناوٹ اور خوبصورتی کے قلابے ملانے میں اس درجہ منہمک ہوگیا کہ اسے یہ خیال تک نہ رہا کہ کم از کم اس لڑکی سے اس کا نام ہی دریافت کر لے کہ وہ ہے کون ؟ اور یہ کہ اسے کہاں ، کس سمت ، اورکس کے پاس جانا ہے ؟

لڑکی اپنے حسن و جمال کی بدولت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ اس کے قلب و اعصاب پر مکمل طور پے قبضہ جما چکی تھی ۔

تقریبا ۲۰ منٹ کی مسافت طے کرنے کے بعد عامر کو اچانک یہی خیال آیا اور اس نے اپنے گھنے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے لڑکی سے سوال کیا محترمہ اگر برا محسوس نہ ہو تو کیا میں آپ سے آپ کا نام پوچھنے کی جسارت کرسکتا ہوں ؟

لڑکی ۔ جی حسینہ !! میرا نام حسینہ ہے !!

ماشاءاللہ یہ تو بہت ہی خوبصورت اور پرکشش نام ہے آپ کے والدین نے آپ کے نام اور نام کے حوالے سے آپ کے ساتھ کافی انصاف سے کام لیا ہے بڑے کہتے ہیں کہ نام انسان کی شخصیت کا آئینہ ہوا کرتی ہے ۔

جی نوازش اور ذرہ نوازی ہے آنجناب کی !

جی تو حسینہ جی !!! کیا مشاغل ہیں آپ کے؟

جی طالبہ ہوں مزید کچھ خاص نہیں

ماشاءاللہ !!!!

یوں ان دونوں کے بیچ مزاج آشنائی کا ایک نہ تھمنے والا لامتنائی سلسلہ شروع ہوگیا ، اس کے ساتھ ہی ملاقاتوں کے لیئے پر فضاء مقامات کا انتخاب ، ملاقاتوں کے ایام اور اوقاتِ کار تک طے پاگئے ، ملاقاتوں کا یہ تواترقربت کا باعث بنتی چلی گئی ، نبانے کے قول و قرار کا معما بھی حتمی طور بھی حل ہوگیا ۔

وہ جہاں بھی جاتے گھنٹوں ساتھ بیٹھ کر ایک دوسرے کی اوصافِ جمیلہ کی مدح سرائی میں مگن رہتے ،

عامر نقاب کے پیچھے حسینہ کے ہونٹوں کی دید کا شدت کے ساتھ متمنی و مشتاق تھا ، مگر دورانِ نشت حسینہ جب بھی کوئی شئے تناول فرماتی تو نقاب کی اوٹ لیکرنقاب کے نیچے سے ہی تناول فرما لیتی اور یوں ہر بار عامر کی حسینہ کے ہونٹوں کی دید کی یہ حسرت پھر سے دم توڑ جاتی ۔

عامر ہمت ہارنے والوں میں سے ہرگز نہ تھا وہ جس شئے کو انجام تک پہنچانے کی ٹھان لیتا ، اُسے انجام تک پہنچا کر ہی دم لیتا لہذا اُس نے ہمت نہ ہارتے ہوئے ملاقاتوں کا یہ سلسلہ بدستور جاری رکھا کہ کسی نہ کسی دن اُس کی یہ حسرت ضرور پوری ہوکر رہے گی ۔

ایک دن عامر نے ہمت بھاندتے ہوئے حسینہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ حسینہ میری آپ سے پہلی ملاقات سے اب تلک بس ایک ہی دلی خوائش رہی ہے کہ میں اپنے ہاتھوں سے آپ کو انتہائی مروت کے ساتھ کچھ کِھلا دوں !

میری اِس حقیر اور ناقص سی خوائش کے حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے ؟

یہ سنتے ہی حسینہ کی آنکھوں اور اس کے چہرے پر ایک عجیب سی سنسنی دوڑ گئی کہ عامر اُسے اپنے ہاتھوں سے کھلانے پر آخر اتنا مُصِر کیوں ہے ؟ مگر اُِس کے زہن نے اچانک اِِس پنپتے خیال اور سوال کو لمحہ بھر میں ٹال کر اُسے مطمئن کردیا کہ اتنا عرصہ ساتھ رہتے ہوئے وہ ایک دوسرے کو خوب اور اچھی طرح سے جان چکے ہیں اور ایک دوسرے پر کافی حد تک اعتماد بھی کرنے لگے ہیں اور اپنے پورے وجود سے اُسے چاہنے والے کا آخر اتنا حق تو بنتا ہی ہے کہ اس کے ایک ادنی سی خوائش کا احترام کیا جائے ،

حسینہ نے وقار کی خوائش پر اثبات میں اپنا سر ہلا دیا ، عامرحسینہ کے اثبات میں سر ہلادینے کی خوشی میں پھولا نہیں سمارہا تھا اور وہ بے انتہا شاد ومسرور تھا اور آج تو مسرت کے مارے اس کی حالت دیدنی تھی کہ کافی عرصے بعد اُس کی ایک دیرینہ خوائش پوری ہونے جارہی ہے اور یہ کہ وہ آج اپنی محبوبہ حسینہ کے پُرکشش عنابی اور اُبھرے ہوئے ہونٹوں کی دید سے اپنی نگاہوں کی پیاس بجھانے والا ہے ، اُسے یوں محسوس ہوا کہ گویا آج اس کی جملہ مناجات بارگاہ ءِ ایزدی میں مبرور و مقبول ہوگئی ہوں وہ اتنا کِھل اٹھا کہ جیسے اس کے چہرے پر قوس قزاح نے اپنے سارے رنگ بکھیر دیئے ہوں ۔

ریسٹورنٹ کے فیملی روم میں بیٹھے عامر نے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کی غرض سے حسینہ کے پسند کے سارے طعام جو اُسے مرغوب تھیں منگوالیئے ، جب کھانا میز پے سجھا لیا گیا تو عامر نے حسینہ کو اپنی دلی حسرت پوری کرنے کی غرض سے چمچ ہاتھ میں تھامے کچھ کھلانے کے لیئے اس کی جانب بڑھادیا ، حسینہ نے اپنے نقاب کو پہلی مرتبہ عامر کی خواہش کے احترام میں اپنے ہونٹوں پر سے سرکا دیا ، عامر کی نگاہ جب اُس کے ہونٹوں پر پڑی تو اس کے پاؤں کے نیچے سے گویا زمین سرک گئی

اس کے سامنے ایک عجیب ، ناقابل فراموش اور غیر یقینی سا منظر تھا جسے دیکھتے ہی اس کے ہوش اڑ گئے ، چھوٹی سی ٹھوڑی ، نچلا ہونٹ وہ بھی بمانند شتر لٹکا ہوا جس نے اس کی ٹھوڑی کو مکمل طور پر ڈھک لیا تھا اور اوپری ہونٹ اُبھری مگر انتہائی بے رونق ، دانت ہونٹوں کی اس بے ترتیبی کی وجہ سے بلکل واضح اور اُن کے بیچ کا فاصلہ بھی کافی زیادہ ، بے ترتیب اور زنگ آلود جن پر صفائی کا کام نہ ہونے کی وجہ سے اُن کے بیچ کی خلا میں کاربن کی خاصی تہیں جمی ہوئی تھیں !!!

ریسٹورنٹ میں یہ منظر دیکھنے کے بعد عامر نے اپنے دل میں محبت کی قبر تعمیر کرڈالی اور اپنی اِس سر چھڑتی محبت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے اس میں دفن کردیا۔

عامر وقت اور حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے چہرے پر ایک مصنوعی مسکان سجھائے حسینہ کو اُس کی مرغوب غذائیں کھلانے میں مصروف ہوگیا کھانے کے بعد اُس نے چند لمحوں کے لیے اُس کے ہونٹوں پر جھوٹی تعریفوں کے پُل باندھ لیے جنہیں سنتے ہی حسینہ انتہائی مسرور ہوگئی ۔

جب دونوں کھانے سے فارغ ہوئے تو عامر حسینہ کو آخری بار اس کے گھر وہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الودداع کہنے کی غرض سے چھوڑ آیا۔

اس ملاقات کے بعد عامر نے اپنا فون نمبر بھی تبدیل کرلیا تاکہ آئندہ ان کے بیچ کسی بھی قسم کا کوئی بھی رابطہ قائم نہ ہو پاٸے۔

یوں انتہائی خوبصورت ، حسین و پُرکشش جازِبِ نَظر وجود ، اخلاص و اخلاق اور وفا کا پیکر ہونے کے باوجود ہونٹوں کے ایک معمولی سے نقص نے حسینہ کی جذبات اور دل میں پنپتے متعدد خواہشات اور محبت کا ایک ہی لمحے میں گلہ گھونٹ دیا ۔

Facebook
Twitter
WhatsApp

ادب سے متعلق نئے مضامین