ہوگئے محروم پانے سے تمہیں
باز آئے آزمانے سے تمہیں
گردشو ، آجاؤ اپنے ہوش میں
اب لگانا ہے ٹھکانے سے تمہیں
میں رہا ہوں اجنبی بن کر مگر
جانتا ہوں اک زمانے سے تمہیں
زعمِ خود آرائی سے فرصت نہیں
کیا غرض ہو پھر زمانے سے تمہیں
چھن گیا سارے پرندوں کا سکون
کیا ملا شاخیں ہلانے سے تمہیں
آنا کانی آئے گی جب بھی نظر
ہم بلائیں گے بہانے سے تمہیں
جانے کیوں مختار میں بچتا رہا
مدعا اپنا سنانے سے تمہیں
مختار تلہری ثقلینی