ہوگا نہ کبھی وعدہ وفا رات گئے تک
بس ہجر کی آئے گی صدا رات گئے تک
جب یاد تری آئی سر شام ستمگر
نیندوں کو میں روتا ہی رہا رات گئے تک
اشکوں سے ہی دھل جاتا ہے ہر صبح یہ قرطاس
یوں نام تو لکھتے ہیں ترا رات گئے تک
آنسو نظر آتے ہی نہیں دن میں کسی کو
رونے کو میں روتا ہی رہا رات گئے تک
تو آئے کہ نہ آئے مری بزم میں جاناں
جلتا ہے امیدوں کا دیا رات گئے تک
یہ درد کے انگار فقط دن میں نہیں ہیں
ملتا ہے وفاوں کا صلہ رات گئے تک
خوشبو کو ترستا ہے چمن باد نسیمی
آتی رہی گلشن سے صدا رات گئے تک
نسیم بیگم نسیم