Hoon Barg e sabz no kar shaakh say juda Mujh ko
غزل
ہوں برگِ سبز نہ کر شاخ سے جدا مجھ کو
نئی رتوں کے مناظر ابھی دکھا مجھ کو
اب انتظار کی بیساکھیاں بھی ٹوٹ گئیں
میں گر نہ جاؤںخدا کے لئے بچا مجھ کو
چہار سمت ببولوں کاہے گھنا جنگل
حیات کھینچ رہی ہے برہنہ پا مجھ کو
خود آہی جائےگا میری صداقتوں کا یقیں
لبِ فرات پھر اک بار آزما مجھ کو
مقدرات اٹل ہیں تو حکم واپس لے
جہاں سے پھینکا تھا واپس وہیں بلا مجھ کو
لبوں پہ رکھتے ہی سنبل مسرتوں کے دئے
اداسیوں کا سمندر ڈبو گیا مجھ کو
صبیحہ سنبل
Sabiha Sunbal