ہوں! محبت نگر کا باشندہ!
نفرتو! بچ کے رہنا آئندہ!
جانے! کتنے دیوں کی خواہش تھی
وہ کریں گے جہان رخشندہ!
روزنوں میں دیے بجھا کر اب
آندھیاں چل رہی ہیں؛ شرمندہ!
سچ کی انگلی پکڑ کے جینے سے
جھوٹ خود کہہ اٹھے گا ،سچ زندہ!
جو قلم چل پڑے دلیرانہ
لفظ رہتے ہیں اس کے تابندہ!
ریت میں بیج مت اُگا غافل
خاک میں زندگی ہے پائندہ!
کوئلیں کوکتی ہیں گلشن میں
سن کے حیراں ہوا ہے سازندہ!
تیری اس کائنات میں مالک!
تیرا بندہ ہے تیرا کارندہ!
نازیہ نزی