Ho zaat Main Pehlay to Fana Raat Gayee Tak
غزل
ہو ذات میں پہلے تو فنا رات گئے تک
پھر ہجر کی دیوار بنا رات گئے تک
سنتی رہی شب بھر ترے قدموں کی ہی آہٹ
شکوہ نہیں ،جیتی ہے انا رات گئے تک
اے زیست مجھے چھوڑ دے تو حال پہ میرے
یوں خون کے آنسو نہ رلا رات گئے تک
بس ایک جھلک سے تری مسحور ہے گلشن
مہکی ہے گلابوں سی فضا رات گئے تک
انمول ہو تم کتنے رہو رب کی اماں میں
یہ مانگتی رہتی ہوں دعا رات گئے تک
الجها ہوا رہتا ہے اکیلے ہی غموں سے
سن میری بهی کچھ اپنی سنا رات گئے تک
سنتی رہی شب بھر ترے قدموں کی ہی آہٹ
شکوہ نہیں ،جیتی ہے انا رات گئے تک
پہلی سی نہیں بات یہ کہتی ہے چکوری
اب چاند بهی ہے گویا سزا رات گئے تک
پانی کی روانی پہ ہے لہروں کی خموشی
بہروپ یہ دریا کا رہا رات گئے تک
سوچا ہی نہ تها ہوگی محبت مری رسوا
آنکهوں سے تبهی دریا بہا رات گئے تک
ہاتهوں میں شکستہ مرے شاہین کے پر ہیں
کہنے کو ہواوں سے لڑا رات گئے تک
شاہین مغل
Shaheen Mughal