ہو گیا شام دن بھی ڈھل ڈھل کر
تھک گیا ہوں زمیں پہ چل چل کر
گل ہوئے ہیں چراغ جل جل کر
موت آئے گی میری ٹل ٹل کر
اشک آنکھوں سے اس طرح نکلے
شمع پگھلی ہو جیسے جل جل کر
پھر اٹھیں گے دعائیں دینے کو
ہاتھ رہ جائیں کیسے مل مل کر
ہم فقیروں کے بھیس میں شب کو
در پہ آئے تمہارے چل چل کر
ہائے افسوس ڈستے جاتے ہیں
آستینوں میں سانپ پل پل کر
آتشِ غم میں ایک تم ہی نہیں
خاک ہم بھی ہوئے ہیں جل جل کر
کوچہ عشق کے خرابے میں
تھک گئے پاؤں میرے چل چل کر
گوشہء دل میں ان کو دیکھا ہے
اپنی آنکھوں کو آج مل مل کر
باغِ الفت میں آج کل قیصر
پھل بھی گرنے لگے ہیں گل گل کر
رانا خالد محمود قیصر