سینہ بَند اپنے لیے مَیں بھی منگانا چاہُوں
مجھ کو حالانکہ یہ معلوم بھی ہے سب کی طرح
کہ مری چھاتیاں وہ پَھل بھی نہیں جن کے لیے
کوئی جنّت بھی لٹا کر نہ پشیماں ٹھہرے
غازہ و سُرخی و سُرمہ بھی مجھے چاہیے ہے
اپنے رخسار و لَب و چشم سجانے کے لیے
میری زُلفوں کا تقاضا بھی ہے اکثر مجھ سے
روغنِ یاسمن و شانہء صندل لا دو
مجھ کو بھی چاہیے ہے سُندس وشبنم کا لِباس
جس پہ زَردوزی سے کاڑھے ہوئے گُل بُوٹے ہوں
جو مرے جسم کو کچھ اور دل آویز کرے
دیکھنے والوں کے جذبات کو مہمیز کرے
مجھ کو حالانکہ یہ معلوم بھی ہے سب کی طرح
کہ مجھے مِلنا ، مجھے چُھونا ، مجھے لِپٹانا
مَنع کر رکّھا ہے مذہب کے خدا والوں نے
نیک لوگوں نے ، شَریفوں نے ، حیا والوں نے
معبدوں سے جنہیں فرصت ہی نہیں ملتی ہے
سُوچنے کے لئے مہلت ہی نہیں ملتی ہے
ورنہ انساں تو سَمجھتے مجھے دُنیا والے
کِسی ایواں میں مرا ذکر بھی گاہے ہوتا
دیکھ کر آئنے میں اپنا سراپا اکثر
اپنے ماں باپ کی قسمت پہ ہنسی آتی ہے
ہائے میں جن کے لئے فخر کا باعث نہ ہوا
ہائے میں جن کے لئے باعثِ ذلّت ٹھہرا
میرے حِصّے میں نہ خدمت نہ شہادت آئی
مُلک اور قوم کا احساں نہ چُکایا میں نے
میرے رازق کی عنایت ہے کہ جی لیتا ہوں
پیٹ بھر لینے کو مل جاتی ہے روٹی کسی طور
دُنیا والو مِرا احساس کرو ، سوچو تو
اپنی مرضی سے تو ایسا نہیں ہوتا کوئی
میں بھی دل رکھتا ہوں سینے میں جگر بھی مجھ کو
طنز و تشنیع کے نِشتر نہ چبھوئے جائیں
میرے زخموں کا مداوا تو مگر ہو کہ نہ ہو
اے خدا تجھ سے شکایت تو مجھے کرنی ہے
میرے صنّاع مجھے تو نے بنایا ہے مگر
ایسی عجلت میں کہ اِس سے نہ بنایا ہوتا
میرے فن کار مجھے بارِ دگر دیکھنا تھا
اپنی تخلیق کو اک اور نظر دیکھنا تھا
سعید صاحب