غزل
ہیں آسمان و زمیں اس لیے کہ حد میں رہے
سو آدمی پہ بھی لازم ہے اپنے قد میں رہے
ہتھیلیاں بھی جھلسنے لگیں بچاتے ہوئے
چراغ دیکھیے کب تک ہوا کی زد میں رہے
وہ جس کو دیکھا نہیں اور نفس نفس سوچا
اسیر عمر بھر اس کے ہی خال و خد میں رہے
نظر نہ آئے تو کیا عمر بھر جلاتی ہے
حسد کی آگ خدایا نہ یوں جسد میں رہے
وہ جس کی خاکِ کفِ پا دیے جلاتی ہے
اسی کی خاکِ کفِ پا مری لحد میں رہے
دعا مثال ہے کیا عرضِ آرزو ساجد
تمام عمر جو حدِ قبول و رد میں رہے
ساجد رضوی