MOJ E SUKHAN
No Record Found
ہے ہر اک شے زوال کی زد پراس پہ بھی اک زوال آئے گا
وقت کے بیکراں سمندر میںشام ہوتے ہی ڈوب جائے گا
سہیل غازی پوری
مرا خلوص ابھی سخت امتحان میں ہے
لطف ہو حشر میں کچھ بات بنائے نہ بنے
وہ میرے حال پہ رویا بھی مسکرایا بھی
کس نے کہا کسی کا کہا تم کیا کرو
تیرا ساتھ ستاروں جیسا
لرز اٹھا ہے مرے دل میں کیوں نہ جانے دیا
نیا سودا نیا درد نہانی لے کے آیا ہوں
اس سے مل کر ہوئی مخمور زلیخا کی طرح
مطافِ کعبہ اقدس میں نعتِ مصطفےٰ مانگوں
آتش دلِ زار میں لگائی اس نے رباعی
تھا ہم سے بھی ربط یا کہ نہ تھا
جب سے وہ گئے ادھرنہیں یاد کیا رباعی
یہ حکم خدا کا کہ قطرہ مے کا نہ پیوں – Ye
مومن لازم ہے وضع مرغوب بنے
رباعیات حکیم عمر خیام نیشا پوری
کیا تیری جدائی میں ستم دیکھتے ہیں رباعی امیر مینائی
غائب بہت اے جان جہاں رہتے ہو رباعی امیر مینائی
باغوں میں جو قمریاں ہیں سب مٹی ہیں رباعی قلندر
سب ستارے لٹا دیۓ میں نے
ہوا کے واسطے اک کام چھوڑ آیا ہوں
ہوائے تیز ترا ایک کام آخری ہے
اک چراغِ آرزو پھر سے جلانا ہے مجھے
عشق جب تک جان و دل کا رہنما ہوتا نہیں
رازداں ہم نے بنایا آپ کو
جرم الفت کی سزا دینے لگے
از رہِ التفات بنتی ہے
میں نے تو درد کو سینے میں چھپا رکھا ہے
سنو اے باوفا لڑکے
تمہاری خاطر نقاب اوڑھوں نہ گھر سے نکلوں
تیرے جانے سے کچھ نہیں بدلا
ہو نے سر جو بدلا ہے
ادھر ادھر کی نہ تم سنانا بچھڑنے والے بتا کے جانا
آجکل دل کا عجب حال ہوا ہے جاناں
جا ترے بس میں نہیں یار محبت کرنا
نظم ہونے لگی
سنو میں مان لوں کیسے تمہیں مجھ سے محبت ہے