یاد نے ان کی ستایا تو غزل ہونے لگی
نا رہا ضبط کا یارا تو غزل ہونے لگی
تھے ہر اک زخم میں پنہاں کئی منظر نامے
سب کو ترتیب سے رکھا تو غزل ہونے لگی
آپ غمگین تھے میں ہنس کے بھلا کیا کرتا
غم ترا اپنا ہی سمجھا تو غزل ہونے لگی
ان کی پازیب کی چھن چھن سے ملی بحر نئی
کنگنا ہاتھ میں کھنکا تو غزل ہونے لگی
دیکھا جب قطرہ شبنم سر رخسار گلاب
اشک جو آنکھ سے ٹپکا تو غزل ہونے لگی
خوب منظر تھا وہ بارش میں نہانا انکا
ذرا بالوں کو جو جھٹکا تو غزل ہونے لگی
ڈور الجھی ہوئی یادوں کی بہت تھی خاور
اک سرا ہاتھ جو آیا تو غزل ہونے لگی
ندیم خاور