یار تم کیا کمال کر گئے ہو
مجھ کو مجھ سے نکال کر گئے ہو
ساری یادیں ہی لے کے چلتے بنے
ہجر تک کو نڈھال کر گئے ہو
اپنی آنکھوں کے اک اشارے سے
دھڑکنیں تم بحال کر گئے ہو
اپنے ہونٹوں سے نام لے کے مرا
پھر سے مجھ کو سنبھال کر گئے ہو
کس قدر تیرگی تھی کمرے میں
کونہ کونہ اجال کر گئے ہو
اب بھی مرتے ہو مجھ پہ تم انصر
تم یہ کیسا سوال کر گئے ہوں
انصر رشید انصر