یار! ماضی کے جو فسانے ہیں
ان میں کچھ آپ کے زمانے ہیں
وہ جو مجنوں کی سمت جاتا تھا
کیا یہ اس دشت کے زمانے ہیں
نیند میں کھیل کر فقط ھم نے
آپ کے نقش ہی بنانے ہیں
میری آنکھوں کا زرد زرد سا رنگ
یہ بھی تو آپ کے نشانے ہیں
تیری یادوں کے، تیری باتوں کے
ذخم جتنے بھی ہیں، پرانے ہیں
دشت میں آبلہ سخن کے لئے
مرحلے اور سخت آنے ہیں
بحر و آہنگ شعر اے ناہید
کچھ حقیقت ہے کچھ فسانے ہیں
ناہید علی