Yaar Man kay they qareen apnay hi dushman Thehray
غزل
یار من کے تھے قریں , اپنے ہی دشمن ٹھہرے
"خیمہ زن جس میں خزاں ہو وہی گلشن ٹھہرے”
زندگی لٹنے کا اب کس سے گلہ ہو یارو
رہنما بھیس میں اپنے جو تھے رہزن ٹھہرے
ہم نے رہنے کی جگہ دی جنہیں اپنے دل میں
دل کے مہمان ہی تو درد کا درپن ٹھہرے
بعد مدت ہوئی آئے ہو صنم میرے گھر
یونہی بیٹھے رہو آنکھوں میں یہ درشن ٹھہرے
آس امید عمارت میں خزاں در آئی
حسرتیں جس سے ٹپکتی ہوں نشیمن ٹھہرے
جس کے ہاتھوں کو چھؤئے باد بھی تو شرما کر
اس کے ہاتھوں میں بھلا کیسے یہ کنگن ٹھہرے
بام پر چاند چمکتا ہوا روشن دیکھا
جیسے چلمن سے جھلکتا ہوا درشن ٹھہرے
آج معصوم چلے آئے وہ یوں دھیرے سے
جیسے چلتی ہوئی رک رک کے یہ دھڑکن ٹھہرے
انعام الحق معصوم صابری
Inam ul Haq Masoom Sabri