Ya Taluq hi siray say na Banaya Jayee
غزل
یا تعلق ہی سرے سے نہ بنایا جا ئے
یا محبت کا ہر اک نازا ٹھایا جائے
صبح کی شوخ کرن آنکھ میں رقصاں ہے ابھی
سو ابھی شام کا گھونگھٹ نہ اٹھایا جائے
خامشی اپنے تعیں ایک زباں ہوتی ہے .
کیا ضروری ہے فلک سر پہ اٹھایا جائے
آج ہی نگہِ طلبگار کا کاسہ بھر دے
عین ممکن ہے کہ کل مجھ سے نہ آیا جائے
کیوں نہ تصویر کی آنکھوں پہ بنا کر آنسو
درد کو ظبط سے آزاد کرایا جائے
میری پرواز پرکھنی ہے تو پرگن کے مرے
آسماں ان کے تناسب سے بنایا جائے
حاکمِ وقت سے بس اتنی گزارش ہے صدف
شہرِ لاہور دبستان بنایا جائے
علی صدف
Ali Sadaf