“یقین”
یہ میرے آنگن کی سب بہاریں
سبھی نظارے یہ رنگ سارے
یہ پھول سارے یوں مجھ سے نظریں چرا رہے ہیں
کہ جیسے مجھ کو گئی رتوں کی
کوئی کہانی سنا رہے ہیں
کہ صحنِ دل کے حسین موسم کی بے ثباتی
کہاں تھمی ہے
ہوا بھی تیور بدل رہی ہے
گلی کے کونے پہ ڈھلتا سورج یہ کہہ رہا ہے
کہ ڈھل کے میں پھر ابھر رہا ہوں
خزاں رتوں کی اداس شامیں
مری تمازت سے جی اٹھی ہیں
ازل سے اب تک یہی ہوا ہے،
ہوا کو مجھ سے محبتوں کا یقیں ملا ہے
جو آج تم تک پہنچ گیا ہے۔
ڈاکٹر حنا امبرین طارق