غزل
یوں تو خود اپنے ہی سائے سے بھی ڈر جاتے ہیں لوگ
حادثے کیسے بھی ہوں لیکن گزر جاتے ہیں لوگ
جب مجھے دشواریوں سے رو بہ رو ہونا پڑا
تب میں سمجھا ریزہ ریزہ کیوں بکھر جاتے ہیں لوگ
صرف غازہ ہی نہیں چہروں کی رعنائی کا راز
شدت غم کی تپش سے بھی نکھر جاتے ہیں لوگ
مسئلے آ کر لپٹ جاتے ہیں بچوں کی طرح
شام کو جب لوٹ کر دفتر سے گھر جاتے ہیں لوگ
ہر نفسؔ مر مر کے جیتے ہیں تجھے اے زندگی
اور جینے کی تمنا میں ہی مر جاتے ہیں لوگ
نفس انبالووی