یوں تو کتنوں سے زمانے میں شناسائی ہے
پھر بھی اس دل میں عجب عالمِ تنہائی ہے
پہلے کچھ لوگ تو رکھتے تھے وفاؤں کا بھرم
اب تو ہر شخص ہی لگتا ہے کہ ہرجائی ہے
دل میں شکوہ ہے نہ حسرت نہ تمنا ہے کوئی
جب سے اس جرمِ محبت کی سزا پائی ہے
ہم کہ برباد ہوئے شوقِ جنوں کے ہاتھوں
کیا کریں دل یہ ہمیشہ سے ہی سودائی ہے
اب مسیحا ہے کوئی اور نہ ہمدرد صبا ؔ
ملنے والوں میں ہر اک شخص تماشائی ہے
صبا عالم شاہ