یوں تو کل ہوں گے فسانہ ہم لوگ
آج لیکن ہیں زمانہ ہم لوگ
اڑتے رہتے ہیں پرندوں کی طرح
ڈھونڈتے کب ہیں ٹھکانہ ہم لوگ
جو کھلی رکھتے ہیں آنکھیں اپنی
ان کو کہتے ہیں دوانہ ہم لوگ
ہم جو کر لیتے بھروسہ تم پر
بن گئے ہوتے نشانہ ہم لوگ
مسکرانے کے لیے ڈھونڈتے ہیں
مسکرانے کا بہانہ ہم لوگ
سیکھ لو ہم سے سبق الفت کا
پاس رکھتے ہیں خزانہ ہم لوگ
ہم بھی کچھ کم تو نہیں ہیں ثاقب
تو یگانہ تو یگانہ ہم لوگ
سہیل ثاقب