یوں تو کیا کیا نظر نہیں آتا
کوئی تم سا نظر نہیں آتا
۔
ڈھونڈتی ہیں جسے مری آنکھیں
وہ تماشا نظر نہیں آتا
۔
ہو چلی ختم انتظار میں عمر
کوئی آتا نظر نہیں آتا
۔
جھولیاں سب کی بھرتی جاتی ہیں
دینے والا نظر نہیں آتا
۔
زیر سایہ ہوں اس کے اے امجدؔ
جس کا سایہ نظر نہیں آتا
امجد حیدر آبادی