Yeh Baat Meri Nahi baat mery Khowab ki hay
غزل
یہ بات میری نہیں بات میرےخواب کی ہے
یہ دل کی جو بھی ہے وہ سلطنت جناب کی ہے
اٹھائے پھرتا ہے ہر شخص ایک پیمانہ
جگر کے خون میں لذت کسی شراب کی ہے
ہو جیسے تشنہ لبی کا کوئی شکار یہاں
جو دل میں دوڑتی تصویر اضطراب کی ہے
ہر ایک لہر پہ لکھا ہوا ہے نام اس کا
تبھی چہار سو تصویر ماہتاب کی ہے
کسی بھی کام کا چھوڑا نہ مخلصی نے مری
یہ زندگی مری تصویر اک سراب کی ہے
گرا ہے لاشا کوئی بے گناہ پھر شاید
اڑی اڑی سی یہ رنگت ہر اک گلاب کی ہے
اے فہمی بچے بھی کرنے لگیں ہیں باتیں بڑی
یہ جدتوں کی نئی شکل اک عذاب کی ہے
فریدہ عالم فہمی
Fareeda Aalam Fehmi