یہ بھی بہت ہے جستجوئے نا تمام میں
اک عکس تیرنے لگا کجلائی شام میں
اے عشق بارگاہِ عقیدت سے اٹھ کے دیکھ
کیا کیا جلا دیا ہے ترے احترام میں
لوحِ بدن سے مٹ گئیں ساری کہانیاں
اک ان کہی پڑی ہے دلِ تِشنہ کام میں
دشوار لگ رہا تھا مگر معجزہ یہ ہے
طے ہو گیا ہے فاصلہ دو چار گام میں
اتراتی پھر رہی ہے چمن میں بہارِگل
مستی بھرا پیام ہے پھولوں کے نام میں
جیسا بھی ہو سلوک گوارا ہے عشق میں
کچھ فرق اب نہیں رہا دانہ و دام میں
یوسف خالد