غزل
یہ بھی ممکن ہے میاں آنکھ بھگونے لگ جاؤں
وہ کہے کیسے ہو تم اور میں رونے لگ جاؤں
اے مری آنکھ میں ٹھہرائے ہوئے وصل کے خواب
میں تواتر سے ترے ساتھ نہ سونے لگ جاؤں
مجھ کو ہر چیز میسر ہے محبت میں سو اب
رائیگانی میں ترے داغ نہ دھونے لگ جاؤں
اتنی خوش فہمی میں نقصان نہ ہو جائے کہیں
میں کوئی پائی ہوئی چیز نہ کھونے لگ جاؤں
جا بہ جا بکھرے ہوئے ہیں مرے خواب اور خیال
میں یہ سامان کہیں اور نہ ڈھونے لگ جاؤں
جھیل میں پاؤں اتارے ہیں کسی نے اعجازؔ
کیوں نہ اب میں بھی یہاں ہاتھ ڈبونے لگ جاؤں
اعجاز توکل