غزل
یہ بہاریں یہ چمن یہ آشیاں میرے لئے
سر بہ سر ثابت ہوئے آزار جاں میرے لئے
پوچھتے کیا ہو دل بے خانماں کی دوستو
اک مصیبت ہے دل بے خانماں میرے لئے
اب طبیعت مشکلوں سے اس قدر مانوس ہے
فصل گل سے کم نہیں دور خزاں میرے لئے
چل دیا جب ناخدا طوفاں میں مجھ کو چھوڑ کر
بن گئی ساحل ہر اک موج رواں میرے لئے
کون سی ہے وہ مصیبت مجھ پہ جو ٹوٹی نہیں
رات دن گردش میں ہیں ہفت آسماں میرے لئے
لاکھ ہوں بے وصف لیکن مدتوں یاد آؤں گا
مدتوں دنیا رہے گی نوحہ خواں میرے لئے
میں نے عاصیؔ ترک کر دی زندگی یہ سوچ کر
کیوں سہے یہ ہر بلائے ناگہاں میرے لئے
پنڈت ودیا رتن عاصی