Yeh Takhyal umr bhar sooya raha to gham nahi
غزل
یہ تخیل عمر بھر سویا رہا تو غم نہیں
ہجرتوں کی کلفتوں کو سہہ لیا تو غم نہیں
زندگی کے راستوں میں بھیڑ تھی احباب کی
سب نے میرے ظرف کو دھوکا دیا تو غم نہیں
طوق اس کی چاہتوں کے شوق سے پہنے مگر
وہ ھنسا تو رو دیا دل جگ ھنسا تو غم نہیں
آج اس کے غم کے موتی آنکھ سے برسے مگر
چہرہ چہرہ درد کا دریا بہا تو غم نہیں
بجلیاں جاں کے نشیمن پر گریں اب شوق سے
جو جہانِ آرزو تھا وہ لٹا تو غم نہیں
عشق میں یوں کب ہوا تھا موسمِ گل یار میں
دفعتََا کچھ پتھروں کا دل دکھا توغم نہیں
میں نے ساربؔ آسماں پہ اک ستارے کو سنا
کہہ رہا تھا وہ اچانک بجھ گیا تو غم نہیں
رشید سارب
Rasheed Sarib