یہ جنسِ گراں ہے کسی معیار تک آؤ
یوسف کے خریدار ہو بازار تک آؤ
ٹوٹے تو کسی طور سکوتِ شبِ زنداں
لب چپ ہیں تو آنکھوں سے ہی اظہار تک آؤ
دم لینے کی جا دار یے دیوار نہیں ہے
یہ سوچ کے اب سایہء دیوار تک آؤ
راتوں کا سفر دن کے اجالوں سے ہے بہتر
بے خوف و خطر صبح کے آثار تک آؤ
اب کون مرا میرے سوا دشمنِ جاں ہے
یوں میری طرح عشق کے آزار تک آؤ
محمود صدیقی