یہ جو لوگوں میں ادب پارہ و فن بانٹتے ہیں
کیوں پسِ بزم رویوں سے چبھن بانٹتے ہیں
بانٹتے پھرتے ہیں کیوں حبسِ مسلسل کا علاج
جب یہ بہروپئے ہر وقت گھٹن بانٹتے ہیں
حرف باحرف یہ دیتے ہیں بہاروں کا ثبوت
لفظ در لفظ خزاں واقعتاً بانٹتے ہیں
ویسے رکھتی ہے زباں مرہمِ الماس ان کی
ویسے لہجوں سے یہ ہر طور دکھن بانٹتے ہیں
ویسے رکھتے ہیں یہ کندھوں پہ خودی کا جھولا
ویسے محفل میں بڑا رقص و بدن بانٹتے ہیں
ہم کو مت چھیڑ کہ ہم سادہ قبا خانہ بدوش
قبل شمشیر جیالوں کو کفن بانٹتے ہیں
ثمر خانہ بدوشؔ