غزل
یہ حکمت عملی ہے کوئی کینہ نہیں ہے
اس ہجر کے گھاؤ کو ابھی سینا نہیں ہے
اب سامنے بنتا ہے مرا عکس تماشا
یہ ہرزہ سرائی پس آئینہ نہیں ہے
کچھ دن کی شناسائی شناسائی نہ سمجھو
یہ خود سے تعلق مرا دیرینہ نہیں ہے
احکام یہاں دل کے ہی چلتے ہیں کم و بیش
یہ عشق ہے اس کی کوئی کابینہ نہیں ہے
بنتے ہیں ہواؤں میں تمنا کے گھروندے
یہ وہ ہیں مکاں جن میں کوئی زینہ نہیں ہے
مرتا تو کوئی شخص نہیں ہجر میں پھر بھی
یہ جینا مرے دوست کوئی جینا نہیں ہے
ہیں درج سبھی دل پہ محبت کے خسارے
یہ گن کے لکھے ہیں کوئی تخمینہ نہیں ہے
اعجاز توکل