غزل
یہ رت عزا کی ہے شہر حزیں سے گزرے گا
لٹے ہوؤں کا قبیلہ یہیں سے گزرے گا
مجھے بچا لے مرے یار سوز امشب سے
کہ اک ستارۂ وحشت جبیں سے گزرے گا
تمام سنگ بدستوں میں میرا شیشۂ دل
خبر نہیں تھی کہ اتنے یقیں سے گزرے گا
زمین تنگ سے ہفت آسماں کی وسعت تک
میں ڈھونڈھ لاؤں گا تجھ کو کہیں سے گزرے گا
دیار غیر ادھر آ کے اس کی وسعت ناپ
اک آسمان مری سرزمیں سے گزرے گا
جو ایک بار تری راہ سے گزر جائے
پھر اس کی ضد ہے دوبارہ وہیں سے گزرے گا
قمر عباس قمر