یہ زخم ہیں کہ پھول ہیں یہ زہر ہیں کہ جام ہیں
مگر یہ میرے شعر اب فقط تمہارے نام ہیں
نہ تم سے ہو کہ مل سکو نہ مجھ سے ہو کہ وقت دوں
تمہیں بھی کتنے کام ہیں ، مجھے بھی کتنے کام ہیں
وہ مصلحت شناس تھا سو اس کا دوش کچھ نہیں
یہ شہر بھر کی تہمتیں ، مری وفا کے نام ہیں
میں اسکو یاد جب کروں،غزل کے دیپ جل اٹھیں
نثار اس خیال پر ، کہ لفظ بھی غلام ہیں
وہ بارشیں اگرچہ اب کسی کی ہو چکیں مگر
یہ میرے دل کے راستے ہنوز تشنہ کام ہیں
اے کم نظر نہ سرسری نظر سے دیکھ تو کہ ہم۔
سحر کا اجلا نور ہیں ،شفق میں لپٹی شام ہیں
اب ان سے کیا بغاوتیں،اب ان سے کیا عداوتیں
کہ وہ فقیہ ِ شہر ہیں ، وہ وقت کے امام ہیں
تو گوش بر صدا رہی ایمان جس کے ہجر میں
خوشا نصیب دیکھئے وہ تجھ سے ہم کلام ہیں
ایمان قیصرانی